تحریر: ڈاکٹر فہیم نواز، ڈاکٹر سجاد احمد جان
تحقیقی اور تجزياتى مقاصد کے لئے عالمى بينک (ورلڈ بینک) دنيا کی تمام ممالک کى معيشتوں کو چار دھڑوں میں تقسيم کرتا ہے. اس درجہ بندى کو بنياد اقوام عالم کے درميان سالانہ فى کس آمدنى کا فرق فراہم کرتا ہے. مالی سال 2023 کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پہلے اور سب سے اعلٰی درجے میں اُن ممالک کا شمار ہوتا ہے جہاں فی کس اوسط سالانہ آمدنی 13,205 امریکی ڈالر یا اس سے زیادہ ہوتی ہو۔ دوسرے درجے میں شامل ممالک کے شہری اوسطاً 4,256 اور 13,205 ڈالر کے درمیان سالانہ آمدن رکھتے ہیں۔ تيسرے درجے میں اُن ممالک کو رکھا جاتا ہے جہاں بسنے والے افراد کى سالانہ آمدنى اوسطاً 1,086 اور 4,255 ڈالر کے درميان ہوتى ہے. سب سے نچلے درجے میں اُن ممالک کا شمار ہوتا ہے جہاں فى کس اوسط سالانہ آمدنی 1,085 ڈالر یا اس سے کم ہوتى ہے. اس پیمانے پہ رياست ہائے متحدہ امريکہ، جاپان، کينيڈا، کويت، سعودى عرب اور يورپى پونين کے زیادہ تر ممالک پہلی اور اعلى درجہ بندى جبکہ ملیشیا، ترکی، آزربائجان، اور روس جیسے ممالک دوسرے درجے کے اہل قرار پاتے ہیں. آمدن ہی کی بنیاد پہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، اور بھوٹان جیسے ممالک تیسرے درجے جبکہ افغانستان، ایتھوپیا، سومالیہ، اور یوگنڈا وغیرہ سب سے نچلے درجے میں شمار ہوتے ہیں۔ تقابلى مقاصد کے علاوہ يہ درجہ بندى اقوام عالم کے درميان موجود معاشى تفاوت اور معیار زندگی کے فرق کى وجوہات سمجھنے اور ان کا تدارک کرنے کو بھى سہل بناتى ہے.
دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں کے مابین آمدن اور معاشی ترقی کے فرق کی ایک بڑی وجہ متعلقہ مہارت اور پیداواری صلاحیت کے تفاوت کو گردانا جاتا ہے۔ ايک ہى صنعت سے وابستہ انجینئر اور مزدور کى اُجرت میں واضح فرق کى وجہ بڑی حد تک پيشہ ورانہ مہارت اور پیداواری صلاحيت ہى ہے. يہى وجہ بڑی حد تک اقوام عالم کے درميان موجود فى کس آمدنى کے فرق کى بھى وضاحت کرتى ہے. مثال کے طور پہ عالمی بینک ہی کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں اوسط فی کس سالانہ آمدن 70,930 ڈالر، سوئٹزرلینڈ میں 90,600 ڈالر، ہندوستان میں 2,150 ڈالر، جبکہ پاکستان میں 1,470 ڈالر کے برابر ہے۔ آمدن کا يہ فرق معيار زندگى اور انسانی ترقى پہ گہرے اثرات مرتب کرتا ہے. زيادہ آمدن والے افراد نا صرف اچھى غذا سے مستفيد ہوتے ہیں بلکہ وہ بہتر طبى اور تفريحى سہولیات تک بھى رسائى رکھتے ہیں. جسمانى وذہنى نشونما اور اوسط انسانى عمر کے تعين میں ان عوامل کا کردار کليدى ہے. ان ہى وجوہات کے بنا پہ ايک اوسط امريکى شہرى 77 سال، سوئس 83سال، ہندوستانی 70 سال اور ايک پاکستانی 66 سال کى اوسط عمر پاتا ہے. چاہے معاملہ فرد واحد کا ہو يا پھر اقوام عالم کا، پیداواری صلاحيت اور آمدن بڑى حد تک ہنرمندى اور متعلقہ شعبے میں مہارت پہ منحصر ہوتے ہیں.
انسانوں کو ہنرمند اور معاشرے کے کارآمد افراد بنانے کے لئے اعلٰی تعلیم ایک اہم اور کليدى سرمايہ کارى کى حيثيت رکھتی ہیں. اعلٰی تعلیم افراد کو ہنر اور صلاحیت سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ترقی کے مواقعوں کی منصفانہ تقسیم میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان ہی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کی ترقی یافتہ ریاستیں اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ اعلٰی تعلیم پہ خرچ کرتی ہے۔ مثال کے طور پہ جرمن وفاقی شماریاتی ادارے کے مطابق جرمنی میں اعلٰی تعلیمی اداروں میں اس وقت تقریباً 30 لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اعلٰی تعلیم کے لئے جرمن حکومت نے اپنے سالانہ بجٹ میں کل 64 ارب یورو مختص کررکھے ہیں جو قریباً ستر ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، اعلٰی تعلیم سے وابستہ ایک طالبعلم پہ جرمن ریاست سالانہ تقریباً 22 ہزار یورو یا 24 ہزار امریکی ڈالر کے برابر خرچ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کی بیشتر سرکاری جامعات میں پڑھنے والے ملکی اور غیرملکی طلباء سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ اسی طرح سال 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکی حکومت نے اپنی سرکاری جامعات میں پڑھنے والے ہر طالبعلم پہ قریباً 32 ہزار ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی۔ اسی طرح سوئٹزرلینڈ کی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں سوئس سرکاری جامعات میں پڑھنے والے ہر طالبعلم پہ سرکاری بجٹ سے قریباً 36 ہزار امریکی ڈالر کے برابر سالانہ رقم خرچ ہوئی۔ ان ممالک کے برعکس پاکستانی سرکاری جامعات میں پڑھنے والے طلباء پہ اٹھنے والے سرکاری خرچ کی تفصیلات حکومت کی طرف سے براہ راست جاری نہیں کی گئی۔ البتہ اس رپورٹ کے لئے مطلوبہ رقم کو جاننے کے لئے حکومت کی طرف سے جاری کردہ دیگر اعداد و شمار سے مدد لی گئی ہے۔ مثلاً پاکستان کے اعلٰی تعلیمی کمیشن کے مطابق سال 2017-18 میں پاکستان کی سرکاری جامعات میں کل 9,61,204 طلباء زیر تعلیم تھے۔ اسی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت نے اعلٰی تعلیمی کمیشن کے لئے 62.183 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا تھا۔ اسی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 4 جولائی 2017 کو ایک امریکی ڈالر 107.4 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔ ان اعدادوشمار کے ذریعے لگائے گئے اندازے مطابق مالی سال 2017-18 میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے سرکاری جامعات میں پڑھنے والے ہر طالبعلم پہ اوسطاً 602.4 امریکی ڈالر کے برابر رقم خرچ کی۔ حالیہ برسوں میں اعلٰی تعلیم کے بجٹ میں ہونے والی کٹوتیوں یہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ پاکستان میں سرکاری وسائل سے طلباء پہ خرچ ہونے والی رقم میں مزید کمی ہوتی جارہی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اعلٰی تعلیم کے لئے مختص بجٹ خرچ بے جا نہیں ہوتا بلکہ یہ ریاست کی طرف سے ایک اہم سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ جو ریاستیں اعلٰی تعلیم پہ زیادہ خرچ کرتی ہیں، اُن کی نوجوان نسل ہنر مند اور بہترین پیداواری صلاحیت سے لیس ہوتی ہے۔ نتیجتاً، وہ افراد نا صرف زیادہ آمدن کماتے ہیں بلکہ قومی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ زیادہ ٹیکس دے کر ریاست کو مالی اور انتظامی طور پہ مظبوط بھی بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اعلٰی تعلیم یافتہ افراد نت نئی ایجادات اور خیالات کے موجد بھی بنتے ہیں۔ یہ دو عوامل کسی بھی معاشرے کی معاشی اور شعوری ترقی کے لئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اعلٰی تعلیم پہ زیادہ خرچنے سے ریاستوں کو دیگر کئی اہم معاملات میں خاطر خواہ بچت بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پہ، اعلٰی تعلیم یافتہ معاشروں میں غربت اور جرائم کی شرح نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اسلئے وہاں ریاست کو قانون نافظ کرنے والے اداروں اور انسداد غربت اور انسداد منشیات جیسے پروگراموں پہ بھی کم رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔
جرائم کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ اعلٰی تعلیم کی فراہمی ریاست پہ عوام کا اعتماد بڑھانے کا موجب بھی بنتی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ ملک کے تمام شہریوں کو معاشی ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا زریعہ بھی بنتی ہے جو ریاست کی تمام اکائیوں کو قریب لاتی ہے۔ یہ عنصر پاکستان جیسی ریاستوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں صوبوں کے درمیان معاشی ترقی کا ایک گہرا فرق موجود ہے۔ اس کی بہترین مثال اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے جاری کردہ انسانی ترقی (Human Development Index) کے اعداد و شمار ہیں۔ اس پیمانے کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ جبکہ سندھ اور خیبرپختونخواہ میں محض اوسط درجے کی انسانی ترقی وجود رکھتی ہے۔ دیگر صوبوں کے برعکس انسانی ترقی کے معاملے میں بلوچستان چوتھے اور سب سے نچلے درجے میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹئ کے جاری کردہ پیمانہ غربت کے مطابق بھی بلوچستان سب سے نچلے درجے پہ فائز ہے جہاں 65.3 فیصد افراد غربت کی لکیر کے نیچے آتے ہیں۔ اسی پیمانے پہ خیبرپختونخواہ میں 50.7 فیصد جبکہ سندھ میں 50.5 فیصد لوگوں کو غربت کا سامنا ہے۔ اس کے برعکس صوبہ پنجاب میں سب سے کم غربت ہے جہاں محض 25.2 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے تمام افراد کو ترقی اور خوشحالی کے یکساں مواقع میسر نہیں ہیں۔ اعلٰی تعلیم نا صرف ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرسکتی ہے بلکہ ریاست پہ عوامی اعتماد میں اضافہ کرکے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں جاری شورش پہ قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
موجودہ وقت میں پاکستان انسانی آبادی کے لحاظ سے خطے کا سب سے نوجوان ملک ہے۔ پاکستانی کی کُل آبادی کے 64 فیصد افراد کی عمریں اس وقت 29 سال سے کم ہیں، جبکہ مزید 30 فیصد افراد کی عمریں 15 اور 29 سال کے درمیان ہیں۔ ان نوجوانوں کو سرمایہ اور قومی ترقی کے روح رواں بنانے کے لئے انھیں ہنر اور صلاحیت سے لیس کرنا ضروری ہے جس کے لئے اعلٰی تعلیم کے لئے زیادہ وسائل مختص کرنا لازمی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اعلٰی تعلیم کا شعبہ شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کی بیشتر سرکاری جامعات کو اس وقت مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اعلٰی تعلیم پہ زیادہ خرچ کرنے سے پاکستان کی نوجوان آبادی ایک قیمتی سرمایہ بن کر روزگار اور ملکی دولت میں اضافہ کرے گی۔ بصورت دیگر اگر معاشرے کے زیادہ تر افراد تعلیم سے محروم ہونگے، تو جرائم اور دہشت گردی جیسے ناسوروں کو پروان چڑھنے سے روکنا ازحد مشکل ہوگا۔