تحریر: ڈاکٹر فہیم نواز، ڈاکٹر سجاد احمد جان
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پاکستان کی نگران وفاقی حکومت نے پندرہ ستمبر کی رات پیٹرول کی قیمت میں تقریباً 26 روپے کا اضافہ کردیا جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 331.38 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں اکثر یہ سوال آتا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ باالفاظ دیگر، وہ کونسے عوامل ہیں جو پیٹرول کی قیمت میں تبدیلی کا موجب بنتے ہیں؟ یہ رپورٹ ان سوالوں کا جواب آسان فہم الفاظ میں دینے کی ایک کوشش ہے۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، یعنی اوگرا کرتی ہے۔ اوگرا کی پیٹرول کی متعین کردہ پرچون قیمت چھ مختلف اجزاء کی قیمتوں کا مرکب ہوتی ہے۔ ان اجزاء میں صاف شدہ تیل کی فی لیٹر بنیادی قیمت، پیٹرولیم پہ حکومت کی طرف سے لاگو شدہ لیوی، اندرون ملک تیل کی مال برداری اور ترسیل پہ فی لیٹر مارجن، تیل کی ترسیل سے منسلک کاروباری افراد کا کمیشن، تیل کی فروخت سے منسلک کمپنی کا کمیشن اور حکومت کی طرف سے لاگو جنرل سیلز ٹیکس شامل ہیں۔ اوگرا کی ویب سائٹ سے حاصل شدہ حالیہ اضافے کے تفصیلی نوٹیفیکیشن میں یہ چھ اجزاء تفصیلاً کالم نمبر 2 سے کالم نمبر 7 تک دیکھے جاسکتے ہیں۔
اوپر دیے گئے جدول میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پیٹرول کی قیمت کے تعین میں سب سے بڑے عوامل درآمد کے بعد ریفائن یعنی صاف شدہ تیل کی قیمت، پیٹرولیم لیوی، اور جنرل سیلز ٹیکس ہیں۔ ان تین اجزاء میں سے درآمد اور ریفائن شدہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمت اور پاکستانی کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں قدر پہ منحصر ہیں۔ اس کے برعکس پیٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس کے تعین کا دارومدار حکومت وقت کی پالیسی پہ منحصر ہوتا ہے۔ ان تین اجزاء کے اُتار چڑھاو مختلف ادوار میں پیڑول کی قیمتوں میں کمی بیشی کا موجب رہے ہیں، جسےاوگرا ہی کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کی مدد سے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
اوپر دیے گئے جدول میں شامل اعداد و شمار اوگرا کی ویب سائٹ پہ موجود مختلف ادوار میں پیٹرولیم مصنوعات میں کئ گئی ردوبدل کے اعلامیوں کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس جدول میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سال 2017 سے سال 2023 تک درآمد اور ریفائن شدہ تیل کی قیمت، پیٹرولیم لیوی، اور جنرل سیلز ٹیکس میں ردوبدل ہی پیٹرول کی قیمت میں کمی بیشی کا موجب رہے ہیں۔ ان تین اجزاء میں درآمد اور ریفائن شدہ تیل کی قیمت کا دارومدار عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر پہ ہوتا ہے، جبکہ لیوی اور جی ایس ٹی خالصتاً پاکستانی حکومت کی صوابدید پہ منحصر ہوتے ہیں۔ لیوی اور جی ایس ٹی پاکستانی حکومت کے لئے آمدن کا ایک بہت بڑا زریعہ ہے جو کہ حکومتی کاروبار اور دیگر سرکاری اخراجات پورے کرنے میں مدد دیتی ہے۔عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں تبدیلی ہو یا ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی بیشی ہو، دونوں ہی عوامل پاکستان میں پیٹرول کی قیمت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس امر کا اندازہ نیچے دیے گئے گراف سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو سال 2017 سے سال 2023 تک عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں تبدیلی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کے قدر میں تبدیلی، اور اور ریفائن شدہ تیل کی قیمت میں تبدیلی جیسے عوامل کا آپس میں تعلق کا احاطہ کرتا ہے۔
نوٹ: اس گراف کو مرتب کرنے کے لئے اعدادوشمار اوپیک اور ایکسچینج ریٹس کی ویب سائٹس سے لئے گئے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت اور معاہدے سے قبل بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے اثرات کو پاکستانی حکومت سبسڈی کے زریعے تیل کے قیمتوں میں اضافے پہ قابو پاتی تھی۔ اس کے برعکس حالیہ دور میں حکومت سبسڈی دینے سے قاصر ہے۔ نتیجتاً، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اضافے، روپے کی بے قدری، اور سبسڈی کی عدم موجودگی میں پیٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کا اثر مہنگائی کے طوفان کی شکل میں نکلنا لازمی امر ہے۔
اس تحریر کے بارے میں رائے یا سوالات کے لئے درج ذیل پتہ پہ ای میل کیجیے
developmentinsightslab@gmail.com
Comment on “پاکستان میں تیل کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ کیا ہے؟”