حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری حالیہ لڑائی نے جہاں مشرقِ وسطٰی کی سیکورٹی صورتحال کو دھچکا لگایا ہے، وہیں پاکستان جیسے تیل کی درآمد پہ انحصار کرنے والے ممالک کی معیشتوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بھی بجانا شروع کردی ہے۔
پاکستان اپنی ضروریات کے لئے درکار زیادہ تر تیل عرب ممالک سے درآمد کرتا ہے جس کے لئے ادائیگی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس موجود ڈالر کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی منڈی سے تیل کی خریداری اور درآمد پہ خرچ ہوجاتا ہے۔ ڈالر کے زخائر کم ہونے سے پاکستانی روپیہ کی قدر بھی بڑی حد تک متاثر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ستمبر کے مہینے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی تھی۔ نتیجتاً، پاکستان کی وفاقی حکومت نے پندرہ ستمبر کو تیل کی قیمت میں قریباً 26 روپے کا اضافہ کرکے تیل کی فی لیٹر قیمت 332 روپے مقرر کردی تھی۔ تیل کی قیمت بڑھنے سے اس طلب اور درآمد میں کمی واقع ہوئی۔ اس سے پاکستان کو تیل کی درآمدی مد میں کم ڈالر خرچنے پڑے جس سے روپے کو مستحکم ہونے کا موقع ملا۔
روپیہ مستحکم ہونے کے نتیجے میں تیل کی درآمد کے لئے پاکستان کو اب نسبتاً کم ڈالر درکا تھے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حکومت نے سولہ اکتوبر کو پٹرول کی قیمت میں کمی کرکے نئی قیمت 283.38 روپے فی لیٹر مقرر کردی۔ اس حالیہ کمی کو اگر مشرقِ وسطٰی میں جاری شورش کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی معیشت کے آنے والے کچھ ہفتے مشکلات کے اشارے دیتے نظر آرہے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پہ حملوں کا آغاز کیا جس کے جواب میں اسرائیلی افواج کا غزہ پہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلسل جاری لڑائی سے اس بات کے خدشات گہرے ہوتے جارہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطٰی کا خطہ ایک بڑی جنگ کا سامنا کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں تیل کی عالمی ترسیل شدید متاثر ہوگی۔ تیل کی رسد کم ہونے سے اس کی عالمی قیمتیں بڑھیں گی جس کی بدولت پاکستان جیسے ممالک کو اپنی ضروریات کا تیل خریدنے کے لئے زیادہ ڈالر درکار ہونگے۔ اس صورتحال میں پاکستانی کرنسی پہ دباوٗ بڑھے گا جس کا ایک واضح نتیجہ افراط زر کی شرح بڑھنے کی صورت میں نکلے گا۔
***